ہمیں افسوس اور دکھ ہے کہ کراچی کے بم دھماکے میں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور کافی لوگ زخمی بھی ہوۓ۔ اس دھماکے کی پہلی ذمہ داری تو حکومت پر عائد ہوتی ہے جس کے سیکیورٹی کے ناکارہ انتظامات کی وجہ سے یہ دھماکہ ہوا۔ اب کیا ہوگا بس دوچار داڑھی والے لوگ کسی مزہبی تنظیم کے پکڑے جائیں گے اور بعد میں ان کا کیا ہوگا یہ کوئی نہ جان سکے گا۔ زیادہ سے زیادہ حکومت یہ کرے گی کہ کسی مزہبی تنظیم کو کالعدم قرار دے دے گی ۔ ہماری حکومت میں اتنی اہلیت ہی نہیں ہے کہ وہ کسی حادثے کی مکمل تشویش کر سکے اور اصل گناہگاروں کو سزا دے سکے۔ ابھی تک کتنے لوگ ہیں جو دہشت گردی ميں پکڑے گۓ اور انہیں سزا ہوئی۔ سواۓ دوچار انٹرنیشنل کیسوں کے باقی مجرموں کا کیا بنا اور وہ کہاں ہیں صرف آئی ایس آئی والوں کو پتہ ہے۔
ہمارا مشورہ یہ ہے کو حکومت کو اپنے مخصوص دائرے سے باہر نکل کر سوچنا ہو گا اور دہماکے کے اصل مجرموں کو پکڑ کر سزا دینا ہو گی۔ اس دہماکے کی تحقیقات کرتے ہوۓ اگر حکموت مندرجہ ذیل سفارشات پر غور کرسکے تو بہت کچھ ظاہر ہوسکتا ہے جو ابھی تک حکومت کی نظروں سے اوجھل ہے۔
۱۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ دہماکہ بھارتی ایجینسی را کا بھی ہوسکتا ہے۔ کیونکہ بھارت نہیں چاہتا کہ پاکستان ميں چند ماہ سکون سے گزر سکیں ۔ پاکستان میں کسی کو پیسے دے کر اس طرح کی تخریب کاری کرواناآجکل کوئی مشکل نہیں ہے۔
۲۔ یہ کام کسی بڑی طاقت کا بھی ہوسکتا ہے جو چاہتی ہے کہ پاکستان کی دہشت گردی کو ختم کرنے کی مہم سرد نہ پڑے اور حکومت اسی بہانے مزہبی جماعتوں کے پیچھے پڑی رہے۔
۳۔ یہ دہماکہ کسی مزہبی انتہا پسند کا کام بھی ہوسکتا ہے جو متعصب يورپ کے خلاف ہو اور اس نے غیرملکی ریسٹورینٹ کو نشانہ بنایا ہو۔
۵۔لوگ يہ بھي کہ سکتے ہيں کہ يہ دھماکہ حکومت نے خود کرايا ہے تاکہ حکومت دہشت گردی کی آڑ میں اپنی ساکھ مغربی حکومتوں کی نظر میں بناۓ رکھے اور زيادہ دير تک اقتدار ميں رہ سکے۔
اب یہ حکومت کا کام ہے کہ اس کے تفتیش کار کس انداز سے اس حادثے کو لیتے ہیں۔ مگر زیادہ چانسزیہی ہیں جو ہم نے پہلے بیان کۓ ہیں کہ کسی مزہبی تنظیم کے لوگوں کوجلد بازی میں ایک دو دن میں پکڑ لیا جاۓ گا اور عالمی میڈیا میں خبر چھپوا کر حکومت سارا کریڈٹ حاصل کر لے گی۔ اس کے بعد کیس داخل دفتر کرکے حکومتی کارندے سوجائیں گے اور پھر دوبارہ تب اٹھیں گے جب دوبارہ کوئی دھماکہ ہوگا۔