بقول عبدالستارایدھی کے پہلے انہیں لندن سے ہی جہاز میں بیٹھنے سے روک دیا گیا اور بعد میں امریکی ایمبیسی سے خط لے کر وہ نیویارک آئے جہاں پہلے انہیں آٹھ گھنٹے تک روکا گیا اور پھر انہیں اٹھارہ فروری کو حاضر ہونے کا کہ کر چھوڑ دیا گیا۔ ایدھی صاحب نے یہ بھی بتایا کہ امریکی امیگریشن والے ان سے یہ بھی پوچھتے رہے کہ وہ اس طرح کیوں نظر آتے ہیں یعنی لمبی داڑھی، پاکستانی شلوار قمیض اور سر پر ٹوپی۔
مانا کہ گرین کارڈ کیلیے ضروری ہے کہ گرین کارڈ ہولڈر سال میں چھ مہینے امریکہ میں رہے۔ مگر ایدھی صاحب کے پاس گرین کارڈ پچھلے آٹھ سال سے ہے۔ اس شرط کو لاگو کرنے کیلیے آٹھ سال تک کیوں انتظار کیا گیا یہ بات اپنی سمجھ میں نہیں آئی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ایدھی صاحب کو گرین کارڈ ملا کیسے اور اگر گرین کارڈ سب کچھ جانتے ہوئے دے دیا گیا تو پھر اب واپس کیوں لیا جارہا ہے۔ دوسری بات یہ کہ ایدھی صاحب کو گرین کارڈ کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیا وہ پاکستانی پاسپورٹ پر دنیا کے سارے ملکوں میں سفر نہیں کرسکتے؟ اصولی طور پر دیکھا جائے تو ایدھی صاحب کے پاس گرین کارڈ نہیں ہونا چاہیے اور اگر امریکی روایات کو دیکھا جائے تو کئی بااثر لوگ ایسے ہوں گے جن کے پاس گرین کارڈ ہوں گے مگر وہ امریکہ میں نہیں رہ رہے ہوں گے۔ اس طرح ایدھی صاحب بھی گرین کارڈ رکھ سکتے ہیں اور انہوں نے آٹھ سال سے رکھا ہوا بھی ہے مگر اب پتہ نہیں کونسی پرابلم امریکی امیگریشن کے آڑے آئی ہے کہ انہوں نے گرین کارڈ واپس لینے کی کاروائی شروع کردی ہے۔
عبدالستار ایدھی جیسا جانا مانا سوشل ورکر اس طرح ائرپورٹس پر خوار ہو ساری دنیا کیلیے شرم کی بات ہے۔ ایسا آدمی تو نوبل پرائز کا حقدار ہے۔ اگر یہی شخص مدر ٹریسا کی طرح عیسائی ہوتا تو اب تک اسے نہ صرف نوبل پرائز مل چکا ہوتا بلکہ سینٹ بن چکا ہوتا۔ حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ عبدالستار ایدھی ایک سیکولر ذہن کے آدمی ہیں مگر ان کا نام اور ملک ان کیلیے بہت بڑی مصیبت بنا ہوا ہے۔ یہ ان کے نام اور ملک کی کرامت ہے کہ امیگریشن والے جانتے ہوئے بھی کہ وہ سوشل ورکر ہیں انہیں ضرور تنگ کرتے ہیں۔
ہمارے صدر مشرف صاحب کو اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اپنے آقاؤں سے یہ منوا سکیں کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی یک شخصی چیرٹی کے مالک کیساتھ مدر ٹریسا اور نیلس منڈیلا جیسا سلوک کریں اور انہیں دنیا میں کہیں بھی جانے کیلیے ویزے سے مستثنٰی قرار دے دیں۔ صدر مشرف تو خود عبدالستار ایدھی کی داڑھی کی وجہ سے ان سے فاصلہ رکھتے ہوں گے تاکہ ان پر مذہبی انتہاپسندی کا لیبل نہ لگ جائے۔
عبدالستار ایدھی کو چاہیے اگر جو بھی ملک ان کیساتھ اس طرح کا سلوک جاری رکھے اس کا بائیکاٹ کردیں اور وہاں سے اپنا بوریا بستر گول کرلیں۔ جو کام ایدھی صاحب کر رہے ہیں اس کیلیے نہ مخیر حضرات کی دنیا میں کمی ہے اور نہ ضرورت مندوں کی۔
ہم امریکی حکومت سے بھی درخواست کریں گے کہ وہ پاکستان کی لامتناہی قربانیوں کے بدلے کم از کم دوسرے پاکستانیوں کی طرح عبدالستار ایدھی کو ڈی پورٹ نہ کریں اور ان کو نہ صرف گرین کارڈ واپس لوٹا دیں بلکہ انہیں امریکی شہریت دے دیں تاکہ ان پر امریکہ میں سال میں چھ ماہ رہنے کی شرط بھی ختم ہوجائے۔
6 users commented in " عبدالستارایدھی کیساتھ ناروا امریکی سلوک شرم کی بات ہے "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackایدھی نے صاف صاف گرین کارڈ کے قانون کی خلافورزی کی ہے اور اقرار بھی کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک عام آدمی کو تو گرین کارڈ چھین کر ائیرپورٹ ہی سے ڈیپورٹ کر دیا جاتا مگر ایدھی کو ملک میں آنے دیا گیا ہے اور امیگریشن سے بات چیت کا موقع بھی فراہم کیا گیا ہے۔
ایدھی صاحب عظیم آدمی ھیں ـ امریکی حکومت کو ان کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرنا چاہیے تھا ـ
ویسے تو نیویارک ایر پورٹ پر عملے کا رویہ بہت نامناسب ہوتاہے۔ لیکن اگر واقعتا ایدھی صاحب نے امیگریشن کے قوانین کی خلاف ورزی کی ہے تو زکریا کا کہنا درست ہے کے انکی امریکہ میں موجودگی ہی بہت ہے ورنہ اس صورت حال میں تو آج کل کے حالات میں کسی کو بات چیت کا موقع بھی نہیں ملتا۔
دوسرے یہ کے چاہے کوئی عظیم آدمی ہو یا غریب عام طور پر امریکہ اور مہذب ممالک میں عظیم لوگوں کے لیے الگ قوانین نہیں ہوتے قانون عام آدمی توڑے یا خاص پوچھ گوچھ تو ہوتی ہے چاہے برطانوی شہزادہ ہو یا امریکی صدر کی بیٹی۔۔ کیونکہ پاکستان میں “خاص“ لوگوں کے ساتھ عام سلوک کو عجیب سمجھا جاتا ہے اسلیے ہمیں یہ سلوک عجیب معلوم ہوتا ہے ورنہ بغیر ویزہ ایک معطل گرین کارڈ کے ساتھ کسی کے ساتھ بھی یہی سلوک ہونا تھا۔۔ اب اسلیے کے ایدھی صاحب ایک سوشل ورکر ہیں انکے لیے گرین کارڈ قوانین میں استثنائی صورت حال پیدا کرنا شاید ممکن نہیں
آج کی خبر یہ ہے کہ ہماری فیملی نے عبدالستار ایدھی کو پاکستان کی پی آئی اے کی فلائٹ سے امریکہ سے پاکستان جاتے دیکھا ہے۔ اب یہ پتہ نہیں کہ امریکہ نے ایدھی صاحب کا گرین کارڈ واپس لوٹا دیا ہے یا پھر عارضی طور پر انہیں جانے کی اجازت دی ہے۔
aap khamkhu shore macha rahay hain…har mulk main doosray maslak kay logon kay saath thora buhut taasab kiyya jata hai lekin ju Pakistan main kiyya jata hai iskee misaal nahain miltee…misaal kay tur pay yeah siraf aik khabar hee lay lee jeeay BBC say;
’اخباروں کا تعصب‘
احمدیوں کے اشتہار بھی چھپانے سے انکار
جماعت احمدیہ پاکستان کے ترجمان نے کہا ہے کہ پاکستان کے قومی اخبارات نے ان کی جماعت کے عام انتخابات سے لاتعلقی کا اعلان شائع کرنے سے انکار کر دیا ہے جو وہ قیمتاً بطور اشتہار شائع کروانا چاہتے تھے۔
جماعت احمدیہ نےاخبارات کے اس رویہ کواس تعصب کا حصہ قرار دیا ہے جو ان کے بقول جماعت احمدیہ کے خلاف عمومی طور پر پاکستان میں ان کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے۔
سنہ دوہزار سات میں احمدیہ پریس کےخلاف بے بنیاد مقدمات کاسلسلہ جاری رہا اور ضلع خوشاب میں احمدی بچوں کے لیے شائع ہونے والے ایک رسالے کی خریداری پر دو بچوں سمیت پانچ افراد کے خلاف مقدمہ درج کیاگیا۔
جماعت احمدیہ کا ترجمان سلیم الدین کا کہناہے کہ اس برس محض عقیدہ کی بنیاد پر پانچ احمدیوں کو قتل کیا گیا جن میں کراچی کے دو ڈاکٹروں کی ہلاکت بھی شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ دو ہزار سات کے دوران چھتیس احمدیوں کےخلاف مقدمات درج کیےگئے اور بیشتر مقدمات تعزیرات پاکستان کی توہین رسالت و مذہبی عقائد کی دفعات دو سو پچانوے اے بی اور سی کے تحت درج کیے گئے۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ اس قانون کے بعد سے احمدیوں کے خلاف امتیازی سلوک روا رکھا جارہا ہے۔ان کےبقول اس کے وقت سے لیکر دسمبر سنہ دوہزار سات تک ستاسی احمدیوں کو مذہب کی بنیاد پر قتل کیا گیا اور احمدیوں کے خلاف ساڑھے تین ہزار مقدمات درج ہوئے جن میں سےدوسو چھتیس توہین رسالت کے ہیں۔تعزیرات پاکستان کے مطابق توہین رسالت کی سزاموت ہے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2008/02/080204_ahmadi_persecution_ra.shtml
ضاماال
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم نے اپنی پوسٹ میں کہیں نہیں لکھا کہ پاکستان میںاقلیتوں کیساتھ اچھا سلوک ہوتا ہے اور دوسری بات ایک غلط بات کو دوسری غلط بات کی مثال دے کر ٹھیک ثابت نہیںکیا جاسکتا۔
ہم نے یہ لکھا کہ ایدھی صاحب کیساتھ امریکہ نے زیادتی کی ہے اگر یہ غلط ہے تو آپ بات آگے بڑھائیں۔
پاکستان میںقادیانی اقلیت کیساتھ ناروا سلوک ایک الگ موضوع ہے اس پر کبھی تفصیل سے اپنا نقطھ نظر بیان کریںگے۔
Leave A Reply